Saturday, August 25, 2012

سچی آپ بیتی۔اژدھا کے منہ میں چار سال۔قسط پنجم۔ وحشی حملہ

اژدھا کے منہ میں چار سال
ملاعبدالسلام ضعیف سابق سفیر افغانستان برائے پاکستان
قسط پنجم:-وحشی بھیڑیوں کا حملہ
          حوالگی کا یہ لمحہ بڑا دردناک اور انتہائی کربناک تھا۔ کئی افراد نے مجھ پر یک بارگی حملہ کردیاجیسے کوئی میمنہ بھیڑیوں کے نرغے میں آگیا ہو اور ہر بھیڑیا زیادہ شدت کے ساتھ اس چیر پھاڑ میں حصہ لے رہا ہو۔ لاتوں،گھونسوں، تھپڑوں اور مکوں کی بارش ہورہی تھی۔ مجھے زمین پر پٹخ دیا گیاتھا۔ چاقووں سے میرا لباس پھاڑا جا رہا تھا۔ فحش گالیاں دی جارہی تھیں۔ میں انگ انگ میں شدید درد محسوس کررہا تھالیکن تشدد تھمنے میں نہیں آرہا تھا۔ حتی کہ میرا پورا لباس چیتھڑے بن کر میرے جسم سے الگ ہو گیا اور میں بالکل برہنہ ہو کر ان کے درمیان بے سدھ پڑا تھا۔اس ذلت اور بے بسی میں میری آنکھوں سے وہ پٹی سرک گئی جو میری آنکھ اور میرے برہنہ جسم کے درمیان حائل تھی۔ چاروں طرف دیکھا تو پاکستانی فوجی اہل کار فوجی انداز میں صف بستہ کھڑے تھے۔ ان میں غالباً کوئی جرنیل بھی تھا کیونکہ فوجی گاڑی پر جنرل کا نشان لگا ہوا تھا۔یہ لوگ امریکیوں سے اتنا بھی نہ کہ سکے کہ کم از کم ہمارے سامنے اس مسلمان قیدی کے ساتھ یہ انسانیت سوز سلوک تو نہ کیا جائے۔وہ خاموشی سے حوالگی کے رسمی تقاضے پورے کرنے میں مگن تھے۔چند امریکی فوجی بھی منظم انداز میں کھڑے تھے اور کچھ میرے ساتھ یہ وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک کررہے تھے۔
          یہ اتنا وحشت ناک اور توہین آمیز منظر تھا کہ مر کر بھی نہیں بھول سکوں گا۔ میں کوئی مجرم نہیں تھا۔اس شرمناک سلوک کو کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔امریکی وحشی جانوروں نے ٹھڈے  اور مکے مار مار کر اس حالت میں اٹھا کر ہیلی کوپٹر میں پٹخ دیا کہ تن پر ستر ڈھانپنے کے لیے اب ایک چیتھڑا بھی نہیں بچا تھا۔ ہاتھ پاوں زنجیروں سے باندھ دیے گئے۔ آنکھیں ایک پٹی سے بند کردی گئیں۔ اور سیاہ کپڑے کا ایک تھیلا سر پر چڑھا دیا گیا۔ اس کے سروں کو ایک ٹیپ کے ذریعے میرے گلے کے ارد گرد مضبوطی سے باندھ دیا گیا جس سے دم گھٹا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ پھر ہیلی کوپٹر کےدرمیان میں ایک تختے کے ساتھ باندھ کر لٹا دیا گیا۔ شدید تکلیف ہورہی تھی۔اگر کوئی ہلکی سی حرکت بھی کرتا تو فوجی بے رحمی سے لات پسلیوں میں رسید کرتے۔
          بدن مار کھاتے کھاتے اس حد تک سُن ہوچکا تھا کہ لا ت یا مکے پڑنے کا زیادہ احساس نہیں ہوتا تھا اور میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حالتِ نزع شروع ہوگئی ہے۔ دل ہی دل میں رب کریم سے دعا مانگ رہا تھا کہ اس لمحے روح بدن کا ساتھ چھوڑ جائے تا کہ مزیدتشدد اور ذلت سےبچ جاوں لیکن شاید رب کو میرا مزید امتحان لینا مقصود تھا۔
          اسی کشمکش ،تشدد، فحش گالیوں کی حالت میں نہ جانے کتنا وقت گزر چکا تھا کہ ایک مقام پر ہیلی کاپٹر نیچے آیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید اب کچھ آرام ملے لیکن وحشی جانوروں نے اُسی بے رحمی کے ساتھ مجھے ہیلی کاپٹر سے نیچے پھینک دیا۔ وہاں کچھ اور فوجی بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے اور تقریباً ایک گھنٹے تک مجھ پر بے پناہ تشدد کرتے رہے۔چار پانچ فوجی میرے اوپر ایسے بیٹھے تھے جیسے وہ کسی انسان پر نہیں بلکہ کسی شہتیر یا چٹان پر بیٹھ کر گپیں ہانک رہے ہیں۔ جب میں کوئی حرکت یا فریاد کرتا تو بڑی بے رحمی کے ساتھ مارتے تھے۔ ان کے نیچے دبا ہوا میں بس ایک ہی دعا کیا کرتا تھا کہ موت آجائے اور میں اس عذاب سے نجات پاجاوں۔
          تقریباً دو گھنٹے بعد مجھے اُسی بے رحمی کے ساتھ کھینچتے ہوئے ایک اور ہیلی کاپٹر میں سوار کرایا گیا۔ اس جہاز کی حالت پہلے ہیلی کاپٹر سے ذرا بہتر تھی۔ یہاں مجھے ایک آہنی کرسی پر بٹھایاگیا۔ بہت سخت طریقے سے باندھا گیا لیکن دیگر جسمانی تشدد نہیں کیا گیا۔ بیس پچیس منٹ بعد ہیلی کاپٹر زمین پر آیا  اور مجھے کھینچتے ہوئے باہر لائے ۔ پھر مجھے کھڑا ہونے کے لیے کہا۔
          بے شمار جہازوں کی مخصوص آوازیں اور کئی افراد کا شور سن رہا تھا۔ اسی دوران ایک ترجمان کی وساطت سے مجھے کہا گیا کہ پاوں نیچے کرلو، نیچے سیڑھیاں ہیں۔ چھ سیڑھیاں گن کر میں نیچے اترا۔ وہاں میرے سر سے سیاہ تھیلا ہٹا دیا گیا۔ آنکھیں کھل گئیں تو میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ کئی امریکی فوجی میرے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کھڑے تھے۔ میں ان کے مکمل حصار میں تھا۔ بائیں طرف نظر دوڑائی تو ایک پنجرہ نما کمرہ نظر آیا۔ جس میں کچھ قیدی بے سدھ پڑے تھے۔ انھوں نے میرے ہاتھ پاوں کھول دیے اور ایک چھوٹے سے حمام کی طرف لے جایا گیا۔ ہاتھ منہ دھونے کا کہا گیا۔ لیکن تشدد اور مسلسل بندھے رہنے سے میرے ہاتھ پاوں شل ہوچکے تھے۔ اس لیے اس پانی سے کوئی استفادہ نہ کرسکا۔ بس صرف اپنے بدن کو شاور کے نیچے کھڑا ہو کر گیلا کرسکا۔ایک خاص وردی پہننے کے لیے دی گئی۔ایک میٹر چوڑائی اور دومیٹر طوالت والے دڑبے میں ڈال دیا گیا۔ کموڈ اور ہاتھ منہ دھونے کی جگہ بھی یہی تھی۔ اس کےعلاوہ کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ یہ در حقیقت ایک پنجرہ تھا جو آزاد پنچھیوں کو قید کرنے اور اُن سے آزاد پرواز کرنے کے اختیار و احساس کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
          چاروں طرف آہنی جال اور دیواریں تھیں۔ تنہائی اور بے بسی کا کرب ناک احساس تھا جس نے مجھے گھیر لیا تھا۔ کہا گیا کہ آپ آرام کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔لیکن آرام کرنے کے لیے کوئی سامان نہ تھا۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور یہ سوچ رہا تھا کہ کہاں ہوں اور کیا ہوگا؟
 
 
باقی آئندہ

--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com/



Read More >>

اژدھا کے منہ میں چار سال.قسط پنجم۔ بحری قید خانہ

اژدھا کے منہ میں چار سال
ملاعبدالسلام ضعیف سابق سفیر افغانستان برائے پاکستان
قسط پنجم:-بحری قید خانے میں
          جب تھوڑے بہت اوسان بحال ہوئے تو دیکھا کہ یہ ایک بالکل تنگ سی جگہ ہے جہاں تین دیگر چھوٹے چھوٹے کمرےتھے۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بھی تھی جس میں متعین اہل کار ہر وقت موجود رہتا تھا۔ یہاں پانی اور واش روم کا انتظام بھی تھا۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ وہ سمندری جہاز ہے جو افغانستان میں جنگ کی خاطر امریکہ نے بحر ہند میں متعین کردیا تھا۔ اس جہاز میں نیچے کی جانب چھٹی منزل پر میں مقید تھا۔ میں نے نہ تو سمندر دیکھا تھا اور نہ یہ بحر ی جہاز کیونکہ یہاں لاتے وقت میری آنکھیں مکمل طور پر سیاہ پٹی سے باندھی گئی تھیں اور اوپر سے موٹے اور سیاہ کپڑے سے بنا ہوا تھیلا بھی پہنا دیا گیا تھا جس نے مجھے دیکھنے سے مکمل طور پر محروم کیا ہوا تھا لیکن صبح و شام بحری جہاز کے انجنوں کی گڑگڑاہٹ اور حرکت سےاندازہ ہوتا تھا کہ میں امریکہ کے ایک بحری جہاز کی نچلی منزل پر قید ہوں۔
          اس کے باوجود کہ مجھ پر سخت خوف طاری تھا، آنکھیں مشکل سے حرکت کرتی تھیں اور زبان تو سوکھ کر تالو سے چپک گئی تھی، ذہن مستعدی سے سوچ بچار میں مصروف تھا۔ بائیں طرف کا کمرہ خاصا بڑا لگ رہا تھا اور گمان ہوتا تھا کہ کئی دیگر قیدی بھی اس کمرے میں موجود ہوں گے۔ صبح ہوتے ہیں سب کی تلاشی ہوئی، ناشتہ دیا گیا۔ اس سرگرمیوں سے اندازہ ہوا کہ ایک اور بھائی بھی یہاں لائے گئے ہیں۔ ہم بات نہیں کرسکتے تھے لیکن ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ کئی قیدی روٹی کے بہانےاپنے کمرے سے چھپ چھپ کر مجھے دیکھ رہے تھے اور میں بھی دُزدیدہ نگاہوں سے ان کا جائزہ لیا کرتا تھا۔ ایک دودن بعد مجھے معلوم ہوا کہ ملا فاضل محمد، نوراللہ انوری صاحب، برہان وثیق صاحب اور غلام روحانی صاحب بھی یہاں موجود ہیں لیکن شدید خواہش کے باوجود ہم گفتگو نہیں کرسکے بس حسرت بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
          صبح ہوئی تو مجھے ہتھکڑیاں لگا دی گئیں اور دائیں طرف  ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں تفتیش کا پہلا مرحلہ شروع ہوا۔ کاغذ پر مختلف پہلووں سے میری انگلیوں کے نشان لیے گئے۔ بائیوگرافی لکھ دی گئی، کئی تصویریں اتاری گئیں لیکن کوئی پوچھ گچھ کیے بغیر واپس اپنے قفس میں لایا گیا۔ یہاں آکر دیکھا کمرے میں مزید کچھ چیزیں رکھ دی گئیں تھیں۔ ایک کمبل اور رضائی کا اضافہ ہوچکا تھا جس کی مجھے شدید ضرورت تھی۔ سفید رنگ کی قابوں میں کچھ خوراک بھی موجود تھی جو ایک فرائی انڈے اور نیم پختہ چاولوں پر مشتمل تھی۔ کھانا کھانے کی سکت نہیں تھی بس چکھنے پر اکتفاء کیا۔ برتن فوراً فوجیوں کے حوالہ کردیے اور چند لمحے آرام کا ارادہ کیا۔ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ ہتھ کڑیوں کی جھنکار اور سپایہوں کے شور و غل سے بیدار ہوا۔ انھوں نے دوبارہ ہتھکڑیاں لگا دیں اور اسی کمرہ ء تفتیش میں پہنچا دیا۔
          تحقیق و تفتیش کے اس دوسرے مرحلے میں بہت کم سوالات پوچھے گئے جو تمام اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے متعلق تھے۔ کہاں ہیں یہ لوگ؟ کیسے ہیں؟ کہاں تھے؟اور کہاں چلے گئے؟ اور عام طور پر طالبان کے متعلق کہ یہ لوگ کون تھے اور کہاں غائب ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک سول جو مختصر تھا لیکن بار بار پوچھا جا رہا تھا وہ نائن الیون کے متعلق تھا۔"آپ کو اس واقعےکے متعلق کچھ علم ہے یا آپ نے کچھ سنا تو نہیں ہے؟"
          یہ بات ان کے علم میں تھی کہ نائن الیون کے واقعات میں نہ میرا کوئی ہاتھ تھا اور نہ مجھے علم تھا کہ اس حادثے کے پیچھے کون ہے؟اورشاید یہ کسی کو بھی پتا نہ چلے کہ اس حادثے کے ذمہ دار کون تھے؟ہزاروں مسلمان شہید کردیے گئے۔ ان گنت قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک امریکہ اس بات پر قادر نہ ہوسکا کہ ایک حقیقی ملزم عدالت میں پیش کرسکے نہ امریکی عوام کو کوئی شافی جواب دے سکا۔بے بنیاد الزام لگا کر کسی کو بھی بغیر کسی قانونی جواز اور ثبوت کے گرفتار کر لیا جاتا ہے ، ملکوں کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے، ہر قسم کی اخلاقی،انسانی اقدا ر کو پاوں تلے روندا جاتا ہے۔ جس کو چاہے دہشت گرد کا لیبل لگا کر بدنام کیا جاتا ہے اور تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ہمارے حکمرانوں کے قویٰ کمزور ہوچکے ہیں اس لیے وہ اس سازش  کا پردہ چاک نہیں کرسکے بلکہ امریکہ کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرنا اپنے باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔
          چار پانچ دن اسی طرح تفتیش ہوتی رہی۔ بالکل الٹے سیدھے سوالات ہورہے تھے۔ لیکن یہاں میرے لیے یہ امر باعثِ اطمینان تھا کہ ان چار پانچ دنوں میں مجھ پر کوئی جسمانی تشدد نہیں ہوا نہ کوئی سزا ہوئی اور نہ کوئی خاص ذہنی اذیت دی گئی۔ لیکن اتنی تنگ جگہ میں مطلوبہ ضروریات میسر نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کے یہ لمحے گزارنا انتہائی مشکل ہورہا تھا۔
          اس جہاز پر پانچ چھے دن ہی گزرے تھے کہ صبح ناشتہ کرنے کے بعد بھورے رنگ کی ایک وردی تھما دی گئی اور حکم ہوا کہ پہلی والی وردی اتار کر یہ وردی پہن لوں۔ چند لمحے بعد منتقلی کی کارروائی شروع ہوئی ۔ ہم سب کے ہاتھ پاوں باندھ دیے گئے، سر پر سفید پلاسٹک کے تھیلے پہنا دیے گئے تا کہ کچھ نظر نہ آسکے۔ معلوم نہیں اب کون سا اذیت ناک مرحلہ درپیش تھا۔
باقی آئندہ
 


--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com/



Read More >>

Saturday, August 18, 2012

PAKISTAN ka Matlab Kia....?? [URDU]



پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔ ؟؟

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash4/295061_10150260024290334_672380333_8207595_970699_n.jpg

یہ میرا پاکستان ہے' اس کی چھاتی پر رواں دواں دریا' اس کی آغوش سے پھوٹتی رحمتوں کے سلسلے' اس کے آنگن میں رقص کرتی ندیاں' اس کے پہاڑوں میں اچھلتے کودتے چشمے' اس کے میدانوں میں شاداں و فرہاں پری رو درخت' زیبا بدن سبزے' نورنگ پھول' پھیلتی سمٹتی روشنیاں' رشک مرجاں شبنمی قطرے' لہلہاتی فصلیں' مسکراتے چمن' جہاں تاب بہاریں اور گل پرور موسم اس کی عظمت کے گیت گا رہے ہیں۔ اس کے پنجابوں پر جھکے جھکے آفاق' اس کی سرحدوںِپر پھیلی پھیلی فضائیں' اس کے بام و تخت کے بوسہ لیتے آسمان اس کے حسن تقدیر کے نقوش بن کر ابھر رہے ہیں۔ یہ میرا ملک بھی ہے' یہ میری تقدیر بھی ہے۔یہ میری داستان بھی ہے' یہ میرا ارماں بھی ہے۔ یہ میری مچلتی آرزو بھی ہے' یہ میری آرزوؤں کا آستاں بھی ہے' میرے خون کے قطروں میں لکھت میں وہ عزم و حوصلہ نہیںجو اس کے آبی قطروں میں ہے۔ میرے دیدہ وچشم کی جھیلوں میں وہ جمال نہیں جو رومان و حسن اس کے جوہڑوں اور تالابوں میں ہے۔ میرے وجود کی مٹی میں وہ دلکشی نہیں جو جاذب نظر اور دلفریبی اس کی خاک میں ہے۔ یہ پھولوں کی دھرتی ہے۔ یہ خوشبوؤں کا مسکن ہے۔ یہ نظاروں کا دیس ہے۔ یہ رحمتوں کی جولانگاہ ہے۔ یہ روشنیوں کا کشور ہے۔ یہ اجالوں کا مصدر ہے۔ اس پر نثار میرے دل وجاں۔ اس پر تصدق میری جز ہائے بدن۔ یہ محض میرا ملک نہیں میرا ایماں بھی ہے' میری جاں بھی ہے' اس کے دکھ مجھے دکھ دیتے ہیں' اس کے سینے سے اٹھنے والے مسائل کے ہوکے میرے دل میں چھبنے والی سوئیاں ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی طرف کوئی ٹیڑھی نظر سے دیکھے تو گویا وہ آنکھ نہیں' میرے جسم میں پیوست ہونے والا تیر ہوتا ہے۔


یہ نظریئے' یہ احساس' یہ سوچیں' یہ افکاریہ' یہ درد' یہ آرزوئیں' یہ ولولے اور یہ تمنائیں کسی ایک شخص کے نہیں' ہر پاکستانی کی ہیں اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہم سب اپنے ملک کی محبت اور عقیدت میں گرفتار ہیں۔ لیکن یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہمارے ملک کی سرکیں' ہمارے وطن کی شاہراہیں' ہمارے دیس کی وادیاں' ہمارے کشور ناز کے صحرا' ہمارے پنجاب کے میدان' ہمارے سرحد کے پربت' ہمارے بلوچستان کے ٹیلے' ہمارے سندھ کے ریگزار قتل گاہیں کیوں بن گئیں۔ یہاں نفرتوںکے کانٹے کس نے بوئے؟ یہاں بارود کے دھوؤں میں ہم وطنوں کا خون کس نے بکھیرا۔ الفت و محبت کے نغموں کو بے سازوبے آوازکس نے کیا؟ ناقص اور غلط افکار کے آوارہ اور بے نسل ہاتھیوں کو دشت وطن میں دوڑنے کا موقع کس نے فراہم کیاکہ گلی گلی حسد وبغض کی خاک اڑنے لگی۔ تہذیب و تمدن کی بساط پر حیا سوزی کی آگ کون روشن کرگیا کہ ملت عریانیت اور فحاشی کی ناز بے کراں میں جلنے لگی۔ جدھر دیکھتے ہیں جسے دیکھتے ہیں' حالات کی ظلمتیں جیسے مقدر کے ساتھ کھیل رہی ہوں۔۔۔۔۔۔!!!

ہم خونیں بدن لئے' ہم مجروح جسم لئے' ہم گھائل دل لئے' ہم امستے افکار لئے 'ہم بے حال وجود لئے اور ہم فگار قلب و جگر لئے منزل ڈھونڈنے' سہارا تلاش کرنے' وسیلہ پکڑنے علماء کے درودولت پر حاضری دیتے ہیں۔ علماء کرام! بچالو ہمیں۔ ہم دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں مشائخ عظام کا'


مشائخ عظام! بچالو ہمیں۔ بچالو ہمارے ملک کو! ہماری ملت کو' ہم سنتے ہیں تمہارے پاس دین ہے۔ کہاں ہے تمہارا دین؟ بچاؤ بچاؤ کہ ہم جل رہے ہیں۔ ہم ڈوب رہے ہیں۔ ہمارا ملک بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ اسے نفرتوں کی چڑیلیں چمٹ گئی ہیں۔ اسے عصبیتوں کے سانپ کانٹ رہے ہیں۔ اسے علاقہ پرستیوں کے بچھو ڈس رہے ہیں۔ خدارا! مدد کرو۔ تم کب تک حسین بحثوں اور دلکش مناظروں کے سوداگر بنے رہوگے؟ اپنے علم کو زحمت آفرین مت بناؤ۔ رحمت پرور بناؤ' لفظ بازی کے میدان سے نکل کر قوم کی امامت کرو' دیکھو ساری قوم تمہارے دروازے پر کھڑی ہے' لگتا ایسے ہے کہ یہ چشمہ فیض بھی کبھی جاری تھا لیکن اب خشک ہوچکا ہے۔ محسوس ایسے ہوتا ہے کہ یہ دریائے رحمت کبھی انسانیت کو سیراب کرتا تھا۔ اب اس کے سوتے بے فیض ہوچکے ہیں۔ سمجھ یہ آتی ہے کہ یہ رسی کبھی خدا تک پہنچانے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ لیکن اب اس کا اپنا ناتا عرش سے کٹ چکا ہے۔ رسم اذاں ہے روح بلالی رضی اﷲ عنہ نہیں۔ وجود نماز ہے قلب علی رضی ﷲ عنہ نہیں۔ ادائے زکواۃ ہے حکمت عثمانی رضی اﷲ عنہ نہیں۔ مناسک دین ہے فراست بوذر رضی اﷲ عنہ نہیں۔ شیریں مقالی ہے عشق حسان رضی اﷲ عنہ نہیں۔ اہتمام تدریس ہے تلقین غزالی رضی اﷲ عنہ نہیں۔۔۔۔۔۔!!!


علمائے کرام ۔۔۔ مشائخ عظام!

تمہارے وجود میں دین مبین کا آب صافی کبھی گدلا نہ ہوتا' تمہارے فیض کا دریائے نور کبھی خشک نہ ہوتا' اگر تم میں ایسے لوگ نہ پیدا ہوجاتے جو خالق پر مخلوق کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کی بوالہوسیاں فیضی وابوالفضل کو بھی شرمسار کردیتی ہیں۔ ہم اہل اسلام' اہل وطن اگر خود تار تار وجود نہ رکھتے ہوتے اور ہماری اپنی شرم سوزیاں اور حیاء سازیاں اگر حد انتہا تک نہ پہنچ چکی ہوتیں تو ہم تمہیں کبھی معاف نہ کرتے لیکن تم اور ہم سب ایک بگڑی ہوئی قوم کا حصہ ہیں۔ اس لئے آؤ شاید ہمارے سیاستدان اور حکمران ہمیں سنبھالا دیں لیکن یہاں بھی دکھتا یہ ہے کہ ہمارا وزن زیادہ ہے اور ہماری سیاست کے ناخداؤں کے سفینے تنگ ظرف ہیں۔ ان کے کمزور اور ناتواں ہاتھ زندگی کی ناؤ کھینچنے میں شاید کامیاب نہیں ہوسکے۔ انہیں فرصت ہی نہیں دولت سازیوں سے' انہیں موقع ہی نہیں دے رہیں' ان کی ہوس افزونیاں' انہیں سوچنے ہی نہیں دیتیں' دنیا پرستیاں' وہ شرمسار لذت کام و دھن میں' وہ سرگرداں ہیں' مستی عیش و عشرت میں' وہ مبتلا ہیں فریب حکم و حکمت میں' وہ محو ہیں قوم کی سادہ سازی اور سادہ گری میں۔ ان کے جسم پاکستانی ہیں اور روحیں پردیسی ہیں۔ ان کے بدن پاکستانی ہیں ان کے ضمیر بدیسی ہیں۔ بقول شخصے۔

اس کے بھی مقدر میں وہی در بدری ہے
 برباد میری طرح نسیم سحری ہے 
میری روح کے مطاف میرے وطن 
میرے دل کے مدار میرے دیس 
میری آنکھ کے منظر شوق میرے وطن 
میری چشم کے منظر جمالی میری دیس


آج تیری قسمت لکھنے والے قلم تلواریں بن گئے۔ آج تیری حفاظت کرنے والے تلواریں کھجور کی خشک شدہ ٹہنیاں ہوگئیں۔ آج تیری ترقی کے لئے سوچنے والے دماغ خشک گوشت کی سڑی ہوئی بوٹیاں بن گئے۔ آج تیری عظمت کے ترانے الاپنے والے شاعر محبوبوں کی زلف ہائے بے سود میں الجھی ہوئی جوئیں ہوگئے۔ آج تیری عظمت کے گیت گانے والوں کے گلوں میں مفاد کی ہڈیاں پھنس گئیں۔

''میرے وطن پاکستان''

تیری گودمیں پھر وہ نوجوان حسن کی بہاریں کب بکھیریں گچن کا مقدر' جن کا نعرہ' جن کا شوق اور جن کی لگن بس یہی ہوگی۔

پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔ لاالہ اﷲ اﷲ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم

میرے وطن! تیرے سرپر دست شفقت رکھنے والے بوڑھے پیر بزرگ کب نشہ مرگ سے باہر آئیں گے کہ تجھے بصیرت اور تدبر کا نور ملے گا۔

''میرے دیس'' تیری چھاتی پر کرکٹ کے بلوں اور ہاکی کی گیندوں سے کھیلنے والوں کو کب فرصت ملے گی کہ وہ کیل و کانٹوں سے لیس ہوکر تیری حفاظت کے لئے بیڑہ اٹھائیں گے۔

''میرے کشور ناز'' میری روح' میرے جگر' تیری تاریخ ماں بیٹیوں کا جنون حسن آرائی اور نشہ شرم سوزی کب دم مرگ دم لے گا کہ وہ تجھے حوصلوں اور پاکیزہ جذبوں کی آغوش میں لے کر پائندہ و زندہ رہنے کی لوری سنائیں گے۔

''میرے وطن'' تو میری زبان ہوجا۔ میرے وطن تو میری آہ بن جا۔ میرے وطن تو عظیم جذبوں میں ڈھل کر بول' آواز دے' ہنگامہ کھڑا کری۔ آج وقت ہے شور مچا اپنوں کو بلا' اپنی برادری کو اکھٹا کر اور صدا لگا۔


اپنی ہی قلفیاں سمجھ کر مجھے لوٹنے والو' میں نہ رہا تو تمہاری عیاشیاں بھی نہ رہیں گی۔ میں نہ رہا تو تمہاری سیاستوں کا بھی مندہ پڑ جائے گا۔ میں نہ رہا تو تمہارے فلک بوس محل بھی گل مردہ کی طرح بے رونق ہوجائیں گے۔ میں نہ رہا تو تمہارے ارمانوں اور آرزوؤں کے سہاگ اجڑ جائیں گے۔ تمہاری شاہ شیریوں کی براتیں لٹ جائیں گی۔ تمہارے سروں کے عمامے گرہ در گرہ بکھر جائیں گے اور تمہاری عزت کی عبائیں اور قبائیں تار تار ہوجائیں گی۔

میرے پھول وطن ۔۔۔۔۔۔ میرے خوشبو دیس 
آتو بھی بول آ میں بھی بولوں
 تو بی دعا کر آ میں بھی پکاروں
 نور شریعت دے دے مولا 
شبنم عظمت دے دے مولا
در رفعت عطا کر مولا

استحکام کی شہدیں نہریں ہوں اور شہد کے دریا بہہ جائیں' زہر کے ساگر ٹوٹ پڑیں اور بغض کے بادل چھٹ جائیں۔ چپہ چپہ رحمت مولا' قدم قدم نور ورنگ' لحظہ لحظہ نظر کرم' لمحہ لمحہ نظر کرم' گام گام اجالے اگیں اور بستی بستی روشنی برسے۔

صدقہ میرے داتا رحمتہ اﷲ علیہ کا
واسطہ میرے غوث رحمتہ اﷲ علیہ کا تجھ کو
مجھے حفظ میں لے مجھے امن سے رکھ!

میری باغوں کے گلدانوں کا' میرے صحرا کے آتش دانوں کا' میرے ذروں اور ستاروں کا' میری بہاروں اور گلزاروں کا' میرے جوبن مست پہاڑوں کا' میری قاری خو آبشاروں کا' میرے سپنوں اور میرے خوابوں کا' میرے آبی موروں اور مرغابیوں کا' میرا کون ہے تیرے سوا مولا!!

ڈاکو لوٹیں عالم سوئیں حاکم سوئیں عالم لوٹیں
حاکم لوٹیں شہری سوئیں اور شہری لوٹیں سب لٹیرے
 میں بے چارہ میں بے بس میں مظلوم میں مقہور

پاکستان زندہ باد ۔۔۔۔۔۔ پاکستان پائندہ باد
 

قـــــد افـلــــح مــــن ذکــــھـــا
وقــــد خـــاب مــــن دســــھــا
 
 ..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Youtube.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg
 



--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com



Read More >>

First Pakistani PhD holder silently makes final journey

First Pakistani PhD holder silently makes final journey

 
BB Qureshi, the first Pakistani women to earn a PhD, silently made her final journey on Wednesday, causing a bet of stir as she spent her last years in the Edhi Old Home.
After holding a PhD Trinity College in Dublin in Agriculture and Economics, she had worked in leading institutions of the world and that former UN Secretary-General Kofi Annan was among her numerous students.
BB Qureshi was born into an educated family in Muradabad, India in 1922. She did her Graduation and Masters in Economics from Aligarh Muslim University.
After earning her PhD, she came back to Islamabad where she taught for several years.
Her first and last love was with education; hence, she remained single throughout her life. Besides national institutions, BB Qureshi served in African Universities for several years.
After years of teaching abroad, she finally returned to Islamabad after years of teaching abroad, she was so disappointed at the standard of education that she decided not to teach anymore.
After feeling rude behavior of her brother, BB Qureshi decided to shift from Rawalpindi to Karachi and opted to stay at Edhi Shelter Home.
Every action of brave lady shows humbleness and kindness as she chose to share a room with women with special needs and psychiatric illness.
In an interview to media a while back, she said that this was her home and she was happy to be there. After the news appeared on media, Governor Sindh Dr Ishratul Ebad offered her to stay at his house but declined.
Her relatives had forced her to move in with them in December 2011 but she again returned to Edhi Home in February, saying that she would not go back to her family.
An official of the Edhi centre said, "BB Qureshi wanted to be independent and not become a financial burden on anyone, not even her family. She was a jolly figure, always smiling and mingled with everyone".
It seemed she was so disheartened by her family as she didn't want them to have her body and wished to be buried at the Edhi Graveyard.
A legend lady made her final journey, mocking over the hurriedly changing culture of the society.

--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com/



Read More >>

Popular Posts